صحیفہ کاملہ

12۔ اعتراف گناہ اور طلب توبہ کی دعا

(۱۲) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِی الِاعْتِرَافِ وَ طَلَبِ التَّوْبَةِ اِلَى اللّٰهِ تَعَالٰى:

اعترافِ گناہ اور طلبِ توبہ کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ اِنَّهٗ یَحْجُبُنِیْ عَنْ مَّسْئَلَتِكَ خِلَالٌ ثَلَاثٌ، وَ تَحْدُوْنِیْ عَلَیْهَا خَلَّةٌ وَاحِدَةٌ:

اے اللہ! مجھے تین باتیں تیری بارگاہ میں سوال کرنے سے روکتی ہیں، اور ایک بات اس پر آمادہ کرتی ہے:

یَحْجُبُنِیْۤ اَمْرٌ اَمَرْتَ بِهٖ فَاَبْطَاْتُ عَنْهُ، وَ نَهْیٌ نَّهَیْتَنِیْ عَنْهُ فَاَسْرَعْتُ اِلَیْهِ، وَ نِعْمَةٌ اَنْعَمْتَ بِهَا عَلَیَّ فَقَصَّرْتُ فِیْ شُكْرِهَا.

جو باتیں روکتی ہیں ان سے میں ایک یہ ہے کہ جس امر کا تو نے حکم دیا میں نے اس کی تعمیل میں سستی کی، دوسرے یہ کہ جس چیز سے تو نے منع کیا اس کی طرف تیزی سے بڑھا، تیسرے جو نعمتیں تو نے مجھے عطا کیں ان کا شکریہ ادا کرنے میں کوتاہی کی۔

وَ یَحْدُوْنِیْ عَلٰى مَسْئَلَتِكَ تَفَضُّلُكَ عَلٰى مَنْ اَقْبَلَ بِوَجْهِهٖۤ اِلَیْكَ، وَ وَفَدَ بِحُسْنِ ظَنِّهٖۤ اِلَیْكَ، اِذْ جَمِیْعُ اِحْسَانِكَ تَفَضُّلٌ، وَ اِذْ كُلُّ نِعَمِكَ ابْتِدَآءٌ.

اور جو بات مجھے سوال کرنے کی جرأت دلاتی ہے وہ تیرا تفضل و احسان ہے جو تیری طرف رجوع ہونے والوں اور حسن ظن کے ساتھ آنے والوں کے ہمیشہ شریک حال رہا ہے۔ کیونکہ تیرے تمام احسانات صرف تیرے تفضل کی بنا پر ہیں، اور تیری ہر نعمت بغیر کسی سابقہ استحقاق کے ہے۔

فَهَاۤ اَنَا ذَا یَاۤ اِلٰهِیْ! وَاقِفٌ بِبَابِ عِزِّكَ وُقُوْفَ الْمُسْتَسْلِمِ الذَّلِیْلِ، وَ سَآئِلُكَ عَلَى الْحَیَآءِ مِنِّیْ سُؤَالَ الْبَآئِسِ الْمُعِیْلِ، مُقِرٌّ لَكَ بِاَنِّیْ لَمْ اَسْتَسْلِمْ وَقْتَ اِحْسَانِكَ اِلَّا بِالْاِقْلَاعِ عَنْ عِصْیَانِكَ، وَ لَمْ اَخْلُ فِی الْحَالَاتِ كُلِّهَا مِنِ امْتِنَانِكَ.

اچھا پھر اے میرے معبود! میں تیرے دروازۂ عزّ و جلال پر ایک عبد مطیع و ذلیل کی طرح کھڑا ہوں، اور شرمندگی کے ساتھ ایک فقیر و محتاج کی حیثیت سے سوال کرتا ہوں، اس امر کا اقرار کرتے ہوئے کہ تیرے احسانات کے وقت ترکِ معصیت کے علاوہ اور کوئی اطاعت (از قبیل حمد و شکر) نہ کر سکا، اور میں کسی حالت میں تیرے انعام و احسان سے خالی نہیں رہا۔

فَهَلْ یَنْفَعُنِیْ یَاۤ اِلٰهِیْ! اِقْرَارِیْ عِنْدَكَ بِسُوْٓءِ مَا اكْتَسَبْتُ؟ وَ هَلْ یُنْجِیْنِیْ مِنْكَ اعْتِرَافِیْ لَكَ بِقَبِیْحِ مَا ارْتَكَبْتُ؟ اَمْ اَوْجَبْتَ لِیْ فِیْ مَقَامِیْ هٰذَا سُخْطَكَ؟ اَمْ لَزِمَنِیْ فِیْ وَقْتِ دُعَایَ مَقْتُكَ؟.

تو کیا اے میرے معبود! یہ بد اعمالیوں کا اقرار تیری بارگاہ میں میرے لئے سود مند ہو سکتا ہے؟ اور وہ برائیاں جو مجھ سے سرزد ہوئی ہیں ان کا اعتراف تیرے عذاب سے نجات کا باعث قرار پا سکتا ہے؟ یا یہ کہ تو نے اس مقام پر مجھ پر غضب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور دُعا کے وقت اپنی ناراضگی کو میرے لئے برقرار رکھا ہے؟

سُبْحَانَكَ! لَاۤ اَیْاَسُ مِنْكَ وَ قَدْ فَتحْتَ لِیْ بَابَ التَّوْبَةِ اِلَیْكَ، بَلْ اَقُوْلُ مَقَالَ الْعَبْدِ الذَّلِیْلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهٖ، الْمُسْتَخِفِّ بِحُرْمَةِ رَبِّهٖ، الَّذِیْ عَظُمَتْ ذُنُوْبُهٗ فَجَلَّتْ، وَ اَدْبَرَتْ اَیَّامُهٗ فَوَلَّتْ، حَتّٰۤى اِذَا رَاٰى مُدَّةَ الْعَمَلِ قَدِ انْقَضَتْ، وَ غَایَةَ الْعُمُرِ قَدِ انْتَهَتْ، وَ اَیْقَنَ اَنَّهٗ لَا مَحِیْصَ لَهٗ مِنْكَ، وَ لَا مَهْرَبَ لَهٗ عَنْكَ، تَلَقَّاكَ بِالْاِنَابَةِ، وَ اَخْلَصَ لَكَ التَّوْبَةَ.

تو پاک و منزہ ہے، میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں، اس لئے کہ تو نے اپنی بارگاہ کی طرف میرے لئے توبہ کا دروازہ کھول دیا ہے، بلکہ میں اس بندۂ ذلیل کی سی بات کہہ رہا ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے پروردگار کی حرمت کا لحاظ نہ رکھا، جس کے گناہ عظیم اور روز افزوں ہیں، جس کی زندگی کے دن گزر گئے اور گزرتے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ جب اس نے دیکھا کہ مدتِ عمل تمام ہو گئی اور عمر اپنی آخری حد کو پہنچ گئی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب تیرے ہاں حاضر ہوئے بغیر کوئی چارہ اور تجھ سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ ہمہ تن تیری طرف رجوع ہوا، اور صدق نیت سے تیری بارگاہ میں توبہ کی۔

فَقَامَ اِلَیْكَ بِقَلْبٍ طَاهِرٍ نَّقِیٍّ، ثُمَّ دَعَاكَ بِصَوْتٍ حَآئِلٍ خَفِیٍّ، قَدْ تَطَاْطَاَ لَكَ فَانْحَنٰى، وَ نَكَّسَ رَاْسَهٗ فَانْثَنٰى، قَدْ اَرْعَشَتْ خَشْیَتُهٗ رِجْلَیْهِ، وَ غَرَّقَتْ دُمُوْعُهٗ خَدَّیْهِ،

اب وہ بالکل پاک و صاف دل کے ساتھ تیرے حضور کھڑا ہوا، پھر کپکپاتی آواز سے اور دبے لہجے میں تجھے پکارا، اس حالت میں کہ خشوع و تذلل کے ساتھ تیرے سامنے جھک گیا اور سر کو نیوڑھا کر تیرے آگے خمیدہ ہو گیا، خوف سے اس کے دونوں پاؤں تھرا رہے ہیں، اور سیلِ اشک اس کے رخساروں پر رواں ہے۔

یَدْعُوكَ: بِیَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، وَ یَاۤ اَرْحَمَ مَنِ انْتَابَهُ الْمُسْتَرْحِمُوْنَ، وَ یَاۤ اَعْطَفَ مَنْ اَطَافَ بِهِ الْمُسْتَغْفِرُوْنَ.

اور تجھے اس طرح پکار رہا ہے: اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے، اے ان سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے جن سے طلبگاران رحم و کرم بار بار رحم کی التجائیں کرتے ہیں، اے ان سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے جن کے گرد معافی چاہنے والے گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔

وَ یَا مَنْ عَفْوُهٗ اَكْثَرُ مِنْ نَّقِمَتِهٖ، وَ یَا مَنْ رِضَاهُ اَوْفَرُ مِنْ سَخَطِهٖ، وَ یَا مَنْ تَحَمَّدَ اِلٰى خَلْقِهٖ بِحُسْنِ التَّجَاوُزِ، وَ یَا مَنْ عَوَّدَ عِبَادَهٗ قَبُوْلَ الْاِنَابَةِ، وَ یَا مَنِ اسْتَصْلَحَ فَاسِدَهُمْ بِالتَّوْبَةِ وَ یَا مَنْ رَّضِیَ مِنْ فِعْلِهِمْ بِالْیَسِیْرِ، وَ یَا مَنْ كَافٰى قَلِیْلَهُمْ بِالْكَثِیْرِ، وَ یَا مَنْ ضَمِنَ لَهُمْ اِجَابَةَ الدُّعَآءِ، وَ یَا مَنْ وَّعَدَهُمْ عَلٰى نَفْسِهٖ بِتَفَضُّلِهٖ حُسْنَ الْجَزَآءِ.

اے وہ جس کا عفو و درگزر اس کے انتقام سے فزوں تر ہے، اے وہ جس کی خوشنودی اس کی ناراضگی سے زیادہ ہے، اے وہ جو بہترین عفوو درگزر کے باعث مخلوقات کے نزدیک حمد و ستائش کا مستحق ہے، اے وہ جس نے اپنے بندوں کو قبول توبہ کا خوگر کیا ہے اور توبہ کے ذریعہ ان کے بگڑے ہوئے کاموں کی درستگی چاہی ہے، اے وہ جو ان کے ذرا سے عمل پر خوش ہو جاتا ہے اور تھوڑے سے کام کا بدلہ زیادہ دیتا ہے، اے وہ جس نے ان کی دُعاؤں کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے، اے وہ جس نے از روئے تفضل و احسان بہترین جزا کا وعدہ کیا ہے۔

مَاۤ اَنَا بِاَعْصٰى مَنْ عَصَاكَ فَغَفَرْتَ لَهٗ، وَ مَاۤ اَنَا بِاَلْوَمِ مَنِ اعْتَذَرَ اِلَیْكَ فَقَبِلْتَ مِنْهُ، وَ مَاۤ اَنَا بِاَظْلَمِ مَنْ تَابَ اِلَیْكَ فَعُدْتَ عَلَیْهِ.

جن لوگوں نے تیری معصیت کی اور تو نے انہیں بخش دیا میں ان سے زیادہ گنہگار نہیں ہوں، اور جنہوں نے تجھ سے معذرت کی اور تو نے ان کی معذرت کو قبول کر لیا ان سے زیادہ قابل سرزنش نہیں ہوں، اور جنہوں نے تیری بارگاہ میں توبہ کی اور تو نے (توبہ کو قبول فرما کر) ان پر احسان کیا ان سے زیادہ ظالم نہیں ہوں۔

اَتُوْبُ اِلَیْكَ فِیْ مَقَامِیْ هٰذَا تَوْبَةَ نَادِمٍ عَلٰى مَا فَرَطَ مِنْهُ، مُشْفِقٍ مِّمَّا اجْتَمَعَ عَلَیْهِ، خَالِصِ الْحَیَآءِ مِمَّا وَقَعَ فِیهِ، عَالِمٍ بِاَنَّ الْعَفْوَ عَنِ الذَّنبِ الْعَظِیْمِ لَا یَتَعَاظَمُكَ، وَ اَنَّ التَّجَاوُزَ عَنِ الْاِثْمِ الْجَلِیْلِ لَا یَسْتَصْعِبُكَ، وَ اَنَّ احْتِمَالَ الْجِنَایَاتِ الْفَاحِشَةِ لَا یَتَكَاَّدُكَ، وَ اَنَّ اَحَبَّ عِبَادِكَ اِلَیْكَ مَنْ تَرَكَ الْاِسْتِكْبَارَ عَلَیْكَ، وَ جَانَبَ الْاِصْرَارَ، وَ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ.

لہٰذا میں اپنے اس موقف کو دیکھتے ہوئے تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اس شخص کی سی توبہ جو اپنے پچھلے گناہوں پر نادم، اور خطاؤں کے ہجوم سے خوف زدہ، اور جن برائیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے ان پر واقعی شرمسار ہو، اور جانتا ہو کہ بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کر دینا تیرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے، اور بڑی سے بڑی خطا سے درگزر کرنا تیرے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، اور سخت سے سخت جرم سے چشم پوشی کرنا تجھے ذرا گراں نہیں ہے، یقیناً تمام بندوں میں سے وہ بندہ تجھے زیادہ محبوب ہے جو تیرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرے، گناہوں پر مصر نہ ہو اور توبہ و استغفار کی پابندی کرے۔

وَ اَنَا اَبْرَاُ اِلَیْكَ مِنْ اَنْ اَسْتَكْبِرَ، وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ اَنْ اُصِرَّ، وَ اَسْتَغْفِرُكَ لِمَا قَصَّرْتُ فِیْهِ، وَ اَسْتَعِیْنُ بِكَ عَلٰى مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.

اور میں تیرے حضور غرور و سرکشی سے دست بردار ہوتا ہوں، اور گناہوں پر اصرار سے تیرے دامن میں پناہ مانگتا ہوں، اور جہاں جہاں کوتاہی کی ہے اس کیلئے عفو و بخشش کا طلبگار ہوں، اور جن کاموں کے انجام دینے سے عاجز ہوں ان میں تجھ سے مدد کا خواستگار ہوں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ هَبْ لِیْ مَا یَجِبُ عَلَیَّ لَكَ، وَ عَافِنِیْ مِمَّاۤ اَسْتَوْجِبُهٗ مِنْكَ، وَ اَجِرْنِیْ مِمَّا یَخَافُهٗ اَهْلُ الْاِسَآءَةِ.

اے اللہ! تو رحمت نازل فرما محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر اور تیرے جو جو حقوق میرے ذمہ عائد ہوتے ہیں انہیں بخش دے، اور جس پاداش کا میں سزاوار ہوں اس سے معافی دے، اور مجھے اس عذاب سے پناہ دے جس سے گنہگار ہراساں ہیں۔

فَاِنَّكَ مَلِیْٓ‏ءٌ بِالْعَفْوِ، مَرْجُوٌّ لِّلْمَغْفِرَةِ، مَعْرُوْفٌ بِالتَّجَاوُزِ، لَیْسَ لِحَاجَتِیْ مَطْلَبٌ سِوَاكَ، وَ لَا لِذَنبِیْ غَافِرٌ غَیْرُكَ، حَاشَاكَ وَ لَاۤ اَخَافُ عَلٰى نَفْسِیْ اِلَّاۤ اِیَّاكَ، اِنَّكَ اَهْلُ التَّقْوٰى‏ وَ اَهْلُ الْمَغْفِرَةِ.

اس لئے کہ تو معاف کر دینے پر قادر ہے، اور تجھ ہی سے مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے، اور تو اس صفت عفو و درگزر میں معروف ہے، اور تیرے سوا حاجت کے پیش کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور نہ تیرے علاوہ کوئی میرے گناہوں کا بخشنے والا ہے، حاشا و کلا کوئی اور بخشنے والا نہیں ہے، اور مجھے اپنے بارے میں ڈر ہے تو بس تیرا۔ اس لئے کہ تو ہی اس کا سزا وار ہے کہ تجھ سے ڈرا جائے، اور تو ہی اس کا اہل ہے کہ بخشش و آمرزش سے کام لے۔

صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اقْضِ حَاجَتِیْ، وَ اَنْجِحْ طَلِبَتِیْ، وَ اغْفِرْ ذَنبِیْ، وَ اٰمِنْ خَوْفَ نَفْسِیْ، اِنَّكَ عَلٰى‏ كُلِّ شَیْ‏ءٍ قَدِیْرٌ، وَ ذٰلِكَ عَلَیْكَ یَسِیْرٌ، اٰمِیْنَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ.

تو محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری حاجت بَر لا، اور میری مراد پوری کر، میرے گناہ بخش دے، اور میرے دل کو خوف سے مطمئن کر دے۔ اس لئے کہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کام تیرے لئے سہل و آسان ہے۔ میری دُعا قبول فرما اے تمام جہان کے پروردگار۔

–٭٭–

فرقہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء و آئمہ علیہ السلام معصوم ہوتے ہیں اور زندگی کے کسی لمحہ میں عمداً و سہواً خطا و گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے خواہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ۔ مگر احساسِ عبودیت کے پیش نظر وہ اللہ کی بارگاہ میں عفو و درگزر کی التجا کرتے اور توبہ و انابت کا ہاتھ اٹھاتے تھے۔ کیونکہ اللہ کے حقوق اور اُس کے ان گنت احسانات و انعامات کے شکریہ سے کوئی بھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ اس لحاظ سے ہر شخص خواہ وہ گناہوں سے محفوظ ہو توبہ و استغفار کا محتاج ہے۔ اسی بنا پر انبیاء و آئمہ علیہ السلام اس حق کی ادائیگی سے عجز کا اعتراف اور توبہ و استغفار کرتے تھے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

"اِنِّیْۤ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ فِیْ كُلِّ يَوْمٍٍ سَبْعِيْنَ مَرَّةً”:

’’میں ہر روز ستّر مرتبہ توبہ و استغفار کرتا ہوں‘‘۔[۱]

ظاہر ہے کہ یہ توبہ و استغفار کسی گناہ کے نتیجہ میں نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ ایک طرح سے عبودیت کا مظاہرہ ہے۔ چنانچہ صاحب کشف الغمہ نے تحریر کیا ہے کہ: انبیاء و آئمہ علیہ السلام ہمہ وقت ذکر و عبادت میں مستغرق اور اُن کے قلوب و اذہان ملاء اعلیٰ سے وابستہ رہتے تھے۔ اور جب وہ اللہ کی عظمت و جلال اور اس کے مقامِ رفیع کے تصور کے بعد اپنی عبادتوں اور ریاضتوں کا جائزہ لیتے اور زندگی کے ان لمحات کو دیکھتے جو عبادت و استغراق کے علاوہ دوسرے مشاغل میں بسر ہوتے تھے، جیسا کھانا پینا، آرام و استراحت وغیرہ تو وہ ان مشغولیتوں کو اللہ کے حقوق میں کوتاہی کا مرادف سمجھتے اور انہیں گناہ سے تعبیر کرتے ہوئے توبہ و استغفار کا سہارا ڈھونڈتے تھے۔

بہرحال یہ توبہ و انابت بلندیٔ درجات اور حصولِ ثواب کی غرض سے ہوتی تھی اور وہ اپنے کو اس سے بے نیاز تصور نہ کرتے تھے کہ اللہ ان پر مزید لطف و احسان فرمائے اور اُن کے مراتب کو بلند سے بلند تر کرے۔ یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ جب معصوم افراد توبہ و انابت سے بے نیاز نہ رہ سکے تو وہ لوگ جو عاصی و خطاکار ہوں وہ کیونکر توبہ و استغفار سے بے نیاز ہو سکتے ہیں، جبکہ توبہ ہی عفو و درگزر کا ذریعہ اور اقرارِ گناہ ہی نجات کا وسیلہ ہے۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

وَ اللّٰهِ! مَا يَنْجُوْ مِنَ الذَّنبِ اِلَّا مَنْ اَقَرَّ بِهٖ.

خدا کی قسم! گناہوں کی پاداش سے وہی نجات حاصل کر سکتا ہے جو گناہوں کا اعتراف کرے۔[۲]

اب امام علیہ السلام کی دُعا پر ایک نظر کیجئے اور دیکھئے کہ وہ گناہوں کی کثافت و آلائش سے یکسر پاک ہونے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے لَو لگانے اور اس کی یاد میں کھوئے رہنے کے باوجود خوف و رجاء کے سنگھم پر کھڑے ہو کر کس طرح اُسے پکارتے اور مجرموں اور گنہگاروں کی طرح فریاد کرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ عظمتِ الٰہی کے تصور اور گناہ و تقصیر کے احساس نے پیروں میں رعشہ، آواز میں کپکپی اور جسم میں تھرتھری پیدا کر دی ہے اور دل میں خوف و ہراس، آنکھوں میں اشکِ ندامت اور نگاہوں میں غبارِ حسرت لئے اس کی بارگاہ میں سر شرم و حیا سے جھکائے ہوئے ہیں۔ گویا زبانِ حال کی صدا یہ ہے:

چگونه سر ز خجالت برآورم بر دوست

که خدمتی به سزا برنیامد از دستم

’’حیا‘‘ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو کسی امر میں کوتاہی یا کسی ایسے فعل کے نتیجہ میں انسان پر طاری ہوتی ہے جسے وہ قابلِ مذمت و سرزنش تصور کرتا ہے۔ خداوند عالم سے حیا کبھی گناہ، کبھی امورِ مستحبہ میں کوتاہی اور کبھی اس کے جلال و جبروت سے متاثر ہونے کے نتیجہ میں محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ انہی تاثرات کی بنا پر فرماتے ہیں کہ: اے معبود! میں کس منہ سے تیری بارگاہ کا رُخ کروں اور کس طرح سوال کرنے کی جرأت کروں، جبکہ میں نے تیرے احکام کے بجا لانے میں سُستی، محرمات و ممنوعات کی طرف پیش قدمی اور تیرے انعام و اکرام کے شکریہ میں کوتاہی کی۔

اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ احساسِ ندامت و اعترافِ گناہ سے اس کی رحمت کا ارادہ جوش میں آتا ہے، کیونکہ:

رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زبان سے

کہہ دے گنہگار کہ تقصیر ہو گئی

اپنے گناہوں کی سنگینی و اہمیت کو نمایاں کرنے کیلئے بارگاہِ الٰہی میں بطور استفہام عرض کرتے ہیں کہ: کیا میرے گناہ بھی اس قابل ہیں جن کا اعتراف میرے لئے سُودمند اور جن کا اقرار بخشش و نجات کی صورت پیدا کر سکتا ہے۔

اس اقرار و اعتراف کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے عفو و بخشش کیلئے جھولی پھیلاتے ہیں کہ:اے میرے معبود! تیرا عفو و درگزر تین حال سے خالی نہیں، یا تو اپنی رحمت کے پیش نظر گنہگاروں سے درگزر کرے گا، جیسا کہ تیرا ارشاد ہے: ﴿وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِہِمْ۝۰ۚ﴾ [۳]: ’’اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار لوگوں کے ظلم کے باوجود اُن سے بڑا ہی درگزر کرنے والا ہے‘‘، یا گنہگار کے عذر و اقرار کی بنا پر درگزر سے کام لے گا، یا توبہ و استغفار کے نتیجہ میں بخشے گا، تو میں پہلا گنہگار، پہلا مجرم اور پہلا عاصی نہیں ہوں جسے بخشنے میں تجھے تردّد ہو اور تیری اس ہمہ گیر رحمت سے محروم رہوں، اور جن معذرت کرنے والوں کو تو نے بخش دیا ان سے زیادہ قابلِ سرزنش نہیں ہوں کہ اقرار و اعتذار کے بعد بھی مجھے نہ بخشے، اور جنہوں نے گناہ کے بعد تیری بارگاہ میں توبہ کی اور تو نے ان کے گناہوں پر خط عفو کھینچ دیا اُن سے زیادہ گنہگار نہیں ہوں کہ مجھ سے درگزر کرنے میں دریغ کرے۔ لہٰذا اپنی رحمت کی فراوانی اور میرے اعترافِ گناہ اور توبہ و استغفار کے نتیجہ میں میرے گناہوں سے درگزر فرما اور تیرے علاوہ اور کون ہے جس سے بخشش کی اُمید کی جائے اور تیرے سوا کون مغفرت کرنے والا ہے جس سے مغفرت کی بھیک مانگی جائے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۱۲۵۴، حدیث ۳۸۱۵

[۲]۔ الکافی، ج ۲، ص ۴۲۶

[۳]۔ سورۂ رعد، آیت ۱۳

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button